جو ریت پر ملا ہے ، کہاں محملوں میں ہے
۔ کب لطف ہے وہ خواب میں جو رتجگوں میں ہے
دھندلا دیئے ہیں دوریوں نے تیرے خد و خال
پر اب بھی تیرا نام مری دھڑکنوں میں ہے
اے یار تم ہنسی پہ میری بدگماں نہ ہو
یہاں تمہارا درد میرے قہقہوں میں ہے
میں تجھ سے دور رہ کے ترے آس پاس ہوں
ہر آن میرا دھیان تری محفلوں میں ہے
سیقی ضرور آئے گا موسم بہار کا
لیکن مرا نصیب ابھی گردشوں میں ہے
وہ ایسے آنکھ سے روٹھے کبھی واپس نہیں آئے
مری جاں وہ ترے سپنے کبھی واپس نہیں آئے
گزر جائے کوئی موسم تو آخر لوٹ آتا ہے
وہ تیرے پیار کے لمحے کبھی واپس نہیں آئے
نہیں مانے بچھڑتے دم، میں کہتا رہ گیا ان سے
کہ جاناں اس طرح بچھڑے کبھی واپس نہیں آئے
مجھے جب چھوڑ کر جانے لگے تو مُڑ کے دیکھا تھا
وہ میرا حال پھر تکنے کبھی واپس نہیں آئے
خلوص اپنا تو غیروں کو بھی واپس کھینچ لایا تھا
مگر سیفی مرے اپنے کبھی واپس نہیں آئے
چمن میں پھول دیکھوں تو خوشی محسوس کرتا ہوں
تصور میں مگر تیری کمی محسوس کرتا ہوں
تری یادوں کی بارش جب مرے دل پر برستی ہے
میں اپنی خشک آنکھوں میں نمی محسوس کرتا ہوں
تجھے گر بھول جاؤں میں تو کیوں جاناں نہ مر جاؤں
ترے پہلو میں رہ کر زندگی محسوس کرتا ہوں
تری الفت کی تلخی جو مرے دل سے ہے وابستہ
کبھی وہ بھول جاتا ہوں کبھی محسوس کرتا ہوں
میں اپنے ہوش کھو دیتا ہوں اُن بے تاب لمحوں میں
تمہارے ہجر کی جب آگہی محسوس کرتا ہوں
مرے رب نے مجھے دنیا کی ہر نعمت عطا کر دی
بس اک تیری محبت کی کمی محسوس کرتا ہوں
خدا شاہد وہ میرا آشنا جب روٹھ جاتا ہے
میں اپنا آپ سیقی اجنبی محسوس کرتا ہوں